مدرسہ کلچر

مولانا وحید الدین خاں، راشٹريه سهارا اُردو، 31 مارچ، 2023

مدرسہ کے بارے میں عام طور پریہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں دینی تعلیم ہوتی ہے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مدرسہ مبنی پراقدار (value education) کا ادارہ ہے۔ مدرسہ دراصل اُن قدیم روایات کے تسلسل کا نام ہے، جب کہ تعلیم کا مطلب اخلاقی تعلیم (moral education) ہوتا تھا، جب کہ انسانی اقدار (human values) کو نصابِ تعلیم کا اہم جز سمجھا جاتا تھا۔

جدید نظامِ تعلیم کے برعکس، مدرسہ میں صرف سبجیکٹ پڑھانے کے بجائے کتابوں کے ذریعے مختلف موضوعات کو پڑھایا جاتا ہے۔ اِس طرح اِن مدرسوں میں ابھی تک قدیم کتابوں کی اہمیت باقی ہے۔ قدیم روایات کے مطابق، یہ تمام کتابیں انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اِس طرح مدارس تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کے ادارے بن گئے ہیں۔ ان مدارس میں سماج کے اچھے شہری تیار کیے جاتے ہیں۔

مدارس کے ماحول میں ہمیشہ خدا اور مذہب اور روحانیت کا چرچا رہتا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ مدارس میں تربیت پاکر جو لوگ تیار ہوں، وہ تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔ وہ اجتماعی ذمے داریوں کو سمجھیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھیں۔ وہ اپنی ذات میں جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کا شعور بھی یکساں طور پر رکھتے ہوں۔

مدرسے کے تعلیمی نظام میں مسلسل طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات دہرائی جاتی ہے۔ یہ دونوں تصور مدرسہ کے پورے نظامِ تعلیم میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔ اِس طرح ہر مدرسہ گویا کہ ایک ایسا ادارہ بن جاتا ہے، جو فنّی تعلیم کے ساتھ انسانی اور اخلاقی کلچر کا مرکز ہو۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں قدیم اخلاقی روایات کا تسلسل جن اداروں کے ذریعے قائم ہے، وہ یہی مدرسے ہیں۔ یہ مدرسے قدیم اخلاقی چراغ کو موجودہ زمانے میں بھی جلائے ہوئے ہیں۔

تـعـلـیـمی پـیـغـام

تعلیم صرف روزگار کا سرٹیفکٹ نہیں۔ اس کا اصل مقصد قوم کے افراد کو باشعور بنانا ہے۔ افراد کو باشعور بنانا ملت کی تعمیر کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ ملت کا سفر جب بھی شروع ہوگا یہیں سے شروع ہوگا۔ اس کے سوا کسی اور مقام سے ملت کا سفر شروع نہیں ہو سکتا۔

با شعور بنانا کیا ہے۔ باشعور بنانا یہ ہے کہ ملت کے افراد ماضی اور حال کو ایک دوسرے سے جوڑ سکیں۔ وہ زندگی کے مسائل کو کائنات کے ابدی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکیں۔ وہ جانیں کہ وہ کیا ہیں۔ اور کیا نہیں ہیں۔ وہ اس راز سے واقف ہوں کہ وہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے ہم آہنگ کر کے ہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ باشعور انسان ہی حقیقی معنوں میں انسان ہے۔ جو باشعور نہیں وہ انسان بھی نہیں۔

با شعور آدمی اپنے اور دوسرے کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کی کون سی رائے جانب دارانہ رائے ہے اور کون سی غیر جانب دارانہ۔ جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو وہ پہچان لیتا ہے کہ یہاں کون سی کارروائی رد عمل کی کارروائی ہے اور کون سی مثبت کارروائی۔ وہ شر کو خیر سے جدا کرتا ہے اور باطل کو الگ کر کے حق کو پہچانتا ہے۔ ایک آنکھ وہ ہے جو ہر آدمی کی پیشانی پر ہوتی ہے۔ تعلیم آدمی کو ذہنی آنکھ عطا کرتی ہے۔ عام آنکھ آدمی کو ظاہری چیزیں دکھاتی ہے، تعلیم کی آنکھ آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ معنوی چیزوں کو دیکھ سکے۔

جس طرح ایک کسان بیج کو درخت بناتا ہے، اسی طرح تعلیم گاہ کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو فکری حیثیت سے اس قابل بنائے کہ وہ ارتقائے حیات کے سفر کو مکمل کر سکے۔ تعلیم آدمی کو ملازمت بھی دیتی ہے۔ مگر یہ تعلیم کا ثانوی فائدہ ہے۔ تعلیم کا اصل پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کو زندگی کی سائنس بتائے۔ وہ آدمی کو حقیقی معنوں میں آدمی بنا دے۔دینی مدارس یہی خدمت انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔